Skip to main content

Posts

!بے حس

اکھڑا اکھڑاساانسان وہ ہمیشہ اکھڑا اکھڑا سا رہتا تھا۔ اسے ہم نے کبھی کسی کہ ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے اسے ایک سال ہو گیا تھا۔ مگر اس نے ہم سے کبھی سلام سے زیادہ  بات نہیں کی۔ اگر ہم میں سے کوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو صرف مختصر سا جواب دیتا۔ وہ ہمارا روم میٹ تھا۔ ہم سے پہلے اس روم میں  رہ رہا تھا۔ دیکھنے میں بہت سادہ سی مگر پر وقار شخصیت کا مالک تھا۔ سادہ سے کپڑے پہنتا۔ کپڑے بھی بہت تھوڑے سے کوئی چار پانچ جوڑے تھے اس کے پاس۔ ہم نے اس کی الماری تقریبا خالی  ہی دیکھی۔ اس کا سامان بہت کم تھا۔  پورے سال میں صرف ایک ہی  کپڑوں کا جوڑا اس نے خریدا جبکہ ہم ہر روز کچھ نہ کچھ ضرور خریدتے رہتے تھے۔ رات کو جلدی سوتا تھا اور صبح بہت جلدی اٹھا کرتا تھا۔اسی طرح اکیلے ہی کھانا کھانے جاتا۔ ہم اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہتے تو ہمیشہ ٹال دیتا۔ ہم تینوں دوستوں کو اس پر بہت غصہ آتا تھا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ کاش اس کی جگہ کوئ اور ہمارا روم میٹ ہوتا۔ کتنا مغرور اور گھمنڈی انسان ہے۔ پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ ہم باقاعدہ اسے کہتے کہ یار فلاں روم خا...
Recent posts

!محبت سے آگے

                                !محبت سے آگے کتنا اچھا اور میٹھا لفظ ہے محبت۔ مگر  اس کی گہرائی کا   اندازہ  کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پیار ، محبت ،لگائو اور دل کو اچھا لگنے والے جزبے کے درمیان فرق کیسے کرو۔ میں تو سمجھتا تھا کہ کسی چیز کا دل کو اچھا لگنا،کسی چیز سے لگائو ہونا محبت ہے۔ میں تو اسی محبت سے واقف تھا۔ میرے لیے محبت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔ یہ محبت مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے سب سے محبت تھی۔ اپنے والدین سے،اپنے بھائیوں سے، اپنے گھر سے، خاص پر اپنے کمرے سے،اپنی کاپیوں  سے اپنی پنسلوں سے، اپنے سکول یونیفارم سے۔ اس محبت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد، فلموں اور ڈراموں سے ایک اور محبت کا پتہ چلا۔ جیسا کہ اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو کی، ہیروئن پر نظر پڑتی ہے اور  انھیں آپس میں پیار ہو جاتا ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔شروع میں یہ محبت میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اس محبت کا بھی عادی ہو گیا۔ اس محبت کی بہت سی کہانی...

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

   ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے     رات کی تاریکی کو اجالے سے داغدار ہونے میں ابھی بڑا وقت پڑا تھا۔ہر سو خاموشی پھیلی تھی۔ جو کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے سے ٹوٹ جاتی۔مگر جلد ہی یہ خاموشی دوبارہ پورے ماحول کو اپنے بسیرے میں لے لیتی۔اس کالی کوٹھری میں گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔شاید اسی لیے اس کا نام کال کوٹھری تھا۔سلاخوں والے دروازے کے قریب ہلکی سی پیلی روشنی آ رہی تھی۔ اسی دروازے کے پاس ہی وہ جائے نماز بچھا کر بیٹھا تھا۔اسے بتا دیا گیا تھا کہ وہ آنے والی صبح نہیں دیکھ سکے گا۔اسے ایسے بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ رات کو اسے نہانے کے لیے گرم پانی کی بالٹی اور دھلے ہوئے صاف کپڑوں کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ آج  روشنی پھیلنے سے پہلے ہی اسے تحتہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔یہ سن کر وہ سکتے میں آ گیا تھا۔مگر جلد ہی سپاہی کی اس گونچ دار آواز نے کہ" نہا کر صاف کپڑے پہن لو۔اور روشنی ہونے سے پہلے تک عبادت کر سکتے ہو"اسےاٹھ جانے پر مجبورکر دیا تھا۔ اس کے لیے وقت رک سا گیا تھا۔بھاری بھاری قدموں کے ساتھ وہ اٹھا۔اور نہانے لگ پڑا۔پانی کب ختم ہوا اسے پ...

روم میٹ

                                  روم میٹ                      وہ میری روم میٹ تھی۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے اتنی اچھی روم میٹ ملے گی۔ یہ میری ہاسٹل لائف کی شروعات تھی۔اس لیے بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کمرہ  بہت تنگ تھا۔ صرف ایک بیڈ کی ہی گنجائش تھی۔   پہلے دن جب میں اس کے روم میں رہنے کے لیے آیا تو مجھے اسے دیکھ کے خوشی ہوئی۔ کیوں کہ ان دنوں میں تنہائی کا شکار تھا۔ اور اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کیا کرتا تھا۔ وہ مجھ سے بولتی تو نہیں تھی مگر میں یہ محسوس کر سکتا تھا کہ وہ خوش ہے اسے مجھ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر اس طرح ہوا کہ ہم ایک ساتھ رہنے لگے۔ وقت گزرتا گیا۔ دنوں کے بعد ہفتے اور ہفتوں کے بعد مہینےگزر گئے۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں اب اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ اسے روم میں نہ پا کر مجھے سخت بے چینی ہوتی تھی۔ وہ میری پہلی محبت تھی۔ اس کی خاموشی مجھے پسند تھی۔ ...

سوچتا ہوں

اتنی بڑی کائنات ہے۔اس میں ملین کے حساب سے کلسٹر ہیں۔کوئی بہت بڑے ہے تو کوئی چھوٹے ہے۔پھر ان کلسٹروں میں کئی ملین گلیکسیز ہے۔اور  گلیکسیز کے اندر سولر سسٹم کی طرح کے کئی پلانٹ سسٹمز ہیں۔ان پلانٹ سسٹمز میں آگے کئی چھوٹے بڑے پلانٹ ہوتے ہیں۔ایسے ہی ہماری دنیا بھی ایک پلانٹ ہے۔نام ہے ارتھ۔جس کی حیثیت اس کائنات میں گرد و غبار میں اڑنے والے ایک زرے سے بھی کم ہے۔اگر اس وسیع و عریض دنیا کی اس کائنات میں یہ حیثیت ہے تو ہماری کیا اوقات ہو گی۔مگر پھر  بھی ہم اس دنیا میں تھوڑی سی زمین کے مالک بن کر خود کو عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔دوسروں سے خود کو اعلی و برتر ماننے لگتے ہے۔ہمارے پاس تھوڑی سی طاقت و اختیار آ جائے تو ہم یہ برداشت نہیں کرتے کہ ہم سے کوئی اونچی آواز میں بات کرے۔ہم اپنی ضرورت سے زائد کے وسائل پر، زمین پر، قابض ہو کر  کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم  کسی اور کا حق کھا رہے ہیں۔اتنی چھوٹی سی دنیا میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام بنا کر ،قتل کر کے، ہم اپنے نام کے ساتھ "دی گریٹ"لگاتے ہیں۔کیا یہ مذاق نہیں ہے؟کیا ایسا کرنے سے ہم واقعی میں عظیم بن جاتے ہیں؟مجھ جیسے جاہل کو تو اس...

بلا عنوان

         بلا عنوان          آج میں ایک آئسکریم کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔کہ میری نظر دکان میں داخل ہوتے اس شخص پر پڑی جو کہ کچھ دیر پہلے ہمارے اگے آگے اپنی چھوٹی سی بیٹی کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا۔دکان مین داخل ہوتے ہی اس نے بیٹی کو بڑے پیار سے اٹھا کے ایک کرسی پر بٹھایا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی کوئی ساڑے تین یا چار سال کی ہو گی۔کندھوں پر چھوٹا سا سکول بیگ لٹکائے،بالوں کی چھوٹی سی پونی کیے ہوئے وہ لڑکی بلکل ننھی پری لگ رہی تھی۔وہ آدمی شاید اپنی بیٹی کو ٹیوشن سے واپس لے کر آرہا تھا۔اس شخص کے پھٹے پرانے لباس مگر اچھی بول چال اور اعتماد نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا تھا۔اسی وجہ سے میں کافی دیر تک ان باپ بیٹی کے پیچھے چلتا آیا تھا۔چلتے ہوئے میں یہ دیکھ رہا تھا کہ وہ ارد گرد اس طرح نظریں گما رہا تھا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔آخر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ پانی تلاش کر رہا تھا۔پانی کے ایک کولر کو دیکھتے ہی وہ اس کی طرف لپکا اور لمحے بھر میں دو اڑھائی گلاس پانی پی گیا۔یہ بات میرے لیے حیران کن اس لیے تھی کیوں کہ ک...

نشیب و فراز

ایک طرف خوشی میں ڈھول پیٹے جا رہے ہیں تو             دوسری طرف شدت غم میں سر پیٹے  جا رہے ہیں              ایک  طرف  مسرتیں  ہیں  تو              دوسری طرف صرف حسرتیں                ایک طرف آسودگی ہے تو                  دوسری طرف افسردگی                 ایک طرف روشنیاں ہیں تو                    دوسری طرف تاریکیاں  ایک طرف فضا میں مسکراہٹیں بکھر  رہی ہیں تو دوسری طرف اسی فضا میں سسکیاں  سنائی دیتی ہیں