ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
رات کی تاریکی کو اجالے سے داغدار ہونے میں ابھی بڑا وقت پڑا تھا۔ہر سو خاموشی پھیلی تھی۔ جو کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے سے ٹوٹ جاتی۔مگر جلد ہی یہ خاموشی دوبارہ پورے ماحول کو اپنے بسیرے میں لے لیتی۔اس کالی کوٹھری میں گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔شاید اسی لیے اس کا نام کال کوٹھری تھا۔سلاخوں والے دروازے کے قریب ہلکی سی پیلی روشنی آ رہی تھی۔ اسی دروازے کے پاس ہی وہ جائے نماز بچھا کر بیٹھا تھا۔اسے بتا دیا گیا تھا کہ وہ آنے والی صبح نہیں دیکھ سکے گا۔اسے ایسے بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔
رات کو اسے نہانے کے لیے گرم پانی کی بالٹی اور دھلے ہوئے صاف کپڑوں کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ آج روشنی پھیلنے سے پہلے ہی اسے تحتہ دار پر لٹکا دیا جائے گا۔یہ سن کر وہ سکتے میں آ گیا تھا۔مگر جلد ہی سپاہی کی اس گونچ دار آواز نے کہ" نہا کر صاف کپڑے پہن لو۔اور روشنی ہونے سے پہلے تک عبادت کر سکتے ہو"اسےاٹھ جانے پر مجبورکر دیا تھا۔
اس کے لیے وقت رک سا گیا تھا۔بھاری بھاری قدموں کے
ساتھ وہ اٹھا۔اور نہانے لگ پڑا۔پانی کب ختم ہوا اسے پتہ ہی نہ چلا۔نئے دیے گئے کپڑے پہن کر وہ دروازے کے قریب جائے نماز بچھا کر بیٹھ گیا۔اس کے زہن میں اس وقت بہت سی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھی۔جیسے کمپیوٹر میں ایک وقت میں بہت سے ٹیب کھولے ہوئے ہوں۔ایک کھڑکی میں جھانکتا تو اسے اس کا بچپن نظر آتا۔کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کانچے کھیل رہا ہے۔ بڑا بھائی ہمیشہ اس کا ساتھ دیا کرتا تھا۔اگر وہ ہار بھی رہا ہو تو اس کا بڑا بھائی اسے ہارنے نہیں دیتا تھا۔ بلکہ اپنے سے چھوٹے دوسرے بھائی کو بھی کہتا کہ یہ ابھی چھوٹا ہے اس کے کانچے اسے واپس کر دو۔ اسے بس کھیلنے دو۔اسے دونوں بڑے بھائی نظر آ رہے تھے۔ اسے وہ گلیاں نظر آ رہی تھی جن میں اس کا بچپن گزرا تھا۔ اس کھڑکی سے نظر ہٹاتا تو دوسری کھڑکی میں اسے اس کے والدین نظر آتے۔ اسے ماں کا خوشی سے چمکتا وہ چہرہ نظر آتا جب ماں کو اس نے اپنی جماعت میں اول آنے کی خوش خبری دی تھی۔ اسے ماں کی انکھوں سے ٹپکتے وہ آنسو یاد آتے جو اس کی ماں اکثر اس کے مستقبل کے بارے میں سوچ کے بہاتی تھی۔اسے اس کا بوڑھا مگر جوان حوصلہ باپ یاد آتا جو معزوری کے بائوجود بیٹوں کے بہتر مستقبل کی خاطر دن رات محنت کرتا تھا۔ اسی طرح کی سینکڑوں کھڑکیوں میں کہیں اسے اس کی محبت تو کہیں اس کے دوست یاد آتے۔(جاری ہے
Comments
Post a Comment