اکھڑا اکھڑاساانسان
وہ ہمیشہ اکھڑا اکھڑا سا رہتا تھا۔ اسے ہم نے کبھی کسی کہ ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا۔ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے اسے ایک سال ہو گیا تھا۔ مگر اس نے ہم سے کبھی سلام سے زیادہ بات نہیں کی۔ اگر ہم میں سے کوئی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو صرف مختصر سا جواب دیتا۔ وہ ہمارا روم میٹ تھا۔ ہم سے پہلے اس روم میں رہ رہا تھا۔ دیکھنے میں بہت سادہ سی مگر پر وقار شخصیت کا مالک تھا۔ سادہ سے کپڑے پہنتا۔ کپڑے بھی بہت تھوڑے سے کوئی چار پانچ جوڑے تھے اس کے پاس۔ ہم نے اس کی الماری تقریبا خالی ہی دیکھی۔ اس کا سامان بہت کم تھا۔ پورے سال میں صرف ایک ہی کپڑوں کا جوڑا اس نے خریدا جبکہ ہم ہر روز کچھ نہ کچھ ضرور خریدتے رہتے تھے۔ رات کو جلدی سوتا تھا اور صبح بہت جلدی اٹھا کرتا تھا۔اسی طرح اکیلے ہی کھانا کھانے جاتا۔ ہم اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہتے تو ہمیشہ ٹال دیتا۔ ہم تینوں دوستوں کو اس پر بہت غصہ آتا تھا۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ کاش اس کی جگہ کوئ اور ہمارا روم میٹ ہوتا۔ کتنا مغرور اور گھمنڈی انسان ہے۔ پتہ نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ ہم باقاعدہ اسے کہتے کہ یار فلاں روم خالی ہے آپ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے مگر وہ ہماری بات پر صرف مسکرا دیتا۔
ایک دن صبح جب ہماری انکھ کھلی تو ہم نے دیکھا کہ وہ بھی آج روم میں ہی تھا۔ میں نے فورا پوچھا آج کالج چھٹی ہے کیا؟ اس کا جواب تھا نہیں۔پھر وہ اگے بڑھا اور ہم سب سے ملتے ہوئے بولا کہ" میں نے کالج سے migration کرا لی ہے۔ میرے والد کا تبادلہ ہو گیا ہے۔"ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ اس کے والد گرلز کالج میں peon کی نوکری کر رہے تھے۔
اس کے جاتے ہی میں نے خوب اس کا مذاق اڑایا۔ اس دن ہم سب بہت خوش تھے۔ کچھ دنوں بعد میں نے اپنا سکول بیگ کھولا تو اس میں ایک کاغذ کا لفافہ تھا۔جس میں کوئ پندرہ ہزار روپے تھے اور ساتھ میں لکھا تھا "تمھارے نئے فون کے لیے"
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کس نے رکھے ہوں گے۔ مگر پانچ ہزار کے تین نوٹ staple ہوئے اور ان پر کلرک کی مارکنگ دیکھ کر جلد ہی میں سمجھ گیا کہ یہ سکالر شپ کے پیسے تھے جو کسی زمانے میں مجھے بھی ملتی تھی۔اگلے دن میں نے کلرک سے پوچھا تو میرا شک سہی نکلا اس سال ہماری کلاس میں سے یہ سکالر شپ عبدالہ کو ہی ملی تھی۔ وہی عبدالہ جو ہمارا روم میٹ تھا۔جو اب جا چکا تھا۔
ہوا کچھ یوں تھا۔ کہ کچھ دن پہلے گھر سے آتے ہوئے میں اپنا فون کہیں کھو بیٹھا تھا۔ اور اب میرے پاس کوئی فون نہیں تھا۔ میرے دونوں دوست اپنے اپنے فونوں پر لگے رہتے تھے۔اور میں روم میں ان دونوں کا منہ دیکھتا رہتا تھا۔ میں اس مہینے نیا فون بھی نہیں لے سکتا تھا۔ کیوں کہ کچھ دن پہلے ہی میں نے یہ فون لیا تھا۔ میں عبدالہ کو بے حس اور خود غرض سمجھتا تھا مگر اس کا احساس دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
دوسری طرف میرے دوست تھے جو کال کے لیے فون دیتے ہوئے بھی تنگ ہوتے تھے۔عبدالہ کو دیکھ کر پتہ چلا کہ ہر
اکھڑا اکھڑا شخص بے حس نہیں ہوتا!
Comments
Post a Comment