Skip to main content

روم میٹ

                       
          روم میٹ          
   
      وہ میری روم میٹ تھی۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا
کہ مجھے اتنی اچھی روم میٹ ملے گی۔ یہ میری ہاسٹل لائف کی شروعات تھی۔اس لیے بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کمرہ  بہت تنگ تھا۔ صرف ایک بیڈ کی ہی گنجائش تھی۔   پہلے دن جب میں اس کے روم میں رہنے کے لیے آیا تو مجھے اسے دیکھ کے خوشی ہوئی۔ کیوں کہ ان دنوں میں تنہائی کا شکار تھا۔ اور اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کیا کرتا تھا۔ وہ مجھ سے بولتی تو نہیں تھی مگر میں یہ محسوس کر سکتا تھا کہ وہ خوش ہے اسے مجھ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ پھر اس طرح ہوا کہ ہم ایک ساتھ رہنے لگے۔ وقت گزرتا گیا۔ دنوں کے بعد ہفتے اور ہفتوں کے بعد مہینےگزر گئے۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے۔ میں اب اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ اسے روم میں نہ پا کر مجھے سخت بے چینی ہوتی تھی۔ وہ میری پہلی محبت تھی۔ اس کی خاموشی مجھے پسند تھی۔ میں دن بھر کے لپھروں کے بعد جب روم میں آتا۔ تو اسے دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی۔ اتنا عرصہ اکٹھا رہنے کے بائوجود وہ اب بھی مجھ سے شرماتی تھی۔ تبھی تو وہ میرے اچانک آنے پر فورا سنبھل کر ایک سائیڈ ہو جاتی تھی۔ مجھے اس کی یہ عادت پسند تھی۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا تھا۔ پھر میری بد نصیبی کے دن شروع ہوئے۔ ایک دن میں اپنے دوست کو روم میں لے آیا۔دوست کو دیکھتے ہی وہ روم سے باہر چلی گئی۔مگر میرا دوست اسے دیکھ چکا تھا۔اس نے اس دیکھتے ہی بولا "ابے یہ تیرے ساتھ روم میں رہتی ہے۔ تبھی تو تیری شکل بھی اس کی طرح بدصورت ہوتی جا رہی ہے"شاید میرے دوست کی یہ بات اس نے سن لی تھی۔ اس دن کے بعد وہ میرے روم میں نہیں آئی۔ کچھ دنوں بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ نیچے والے کمروں میں رہتی ہے۔میں فورا بھاگتا ہوا آیا اور اسے ڈھونڈنے لگ گیا۔ آخر وہ مل ہی گئی مگر وہ مجھ سے بہت خفا تھی۔وہ مجھے سامنے تک نہ دیکھنا چاہتی تھی۔میری بات تک نہ سننا چاہتی تھی۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی۔ میں نے اسے بتایا کہ تمہارے بغیر میں رہ نہیں پائو گا۔آ جائو ہم دوبارہ  پھر سے اکٹھے رہتے ہیں۔ میں نے اسے اپنے روم پہ لانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانی۔مجھے اپنی سب باتوں کا جواب اس کی خاموشی میں سمجھ آ رہا تھا۔شاید وہ کہ رہی تھی کہ" اسی دوست کے پاس جا کر رہو۔ آج جب تمہارے بہت سے دوست بن گئے ہیں۔ تمہاری کافی جان پہنچان ہو گئی ہے۔ مجھ سے بہتر اور پیارے لوگ تمہارے پاس موجود ہے تو تم ان کے پاس جا کر کیوں نہیں رہتے؟ یہ دنیا کا دستور ہے کہ ہر کوئی بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔ آجکل کن سوچتا ہے کہ برے وقت میں کن میرے ساتھ تھا؟جائو تم بھی اپنے اچھے صاف ستھرے دوستوں میں رہو۔"
آخر میں واپس آگیا۔ کچھ دن وہیں رہا پھر دوستوں کے ساتھ ان کے ہاسٹل رہنے لگا۔آج جب میں ان دوستوں کو روم میں شور مچاتے دیکھتا ہو۔ تو مجھے میری وہ روم میٹ یاد آتی ہے۔ آج جب میں ان خوبصورت دوستوں کے ساتھ رہ کر ان کے کردار کی بدصورتی دیکھتا ہوں تو مجھے میری وہ بدصورت ہمسفر یاد آتی ہے۔ میں اپنی اس بدصورت روم میٹ کو آج بھی بہت مس کرتا ہوں۔خاص طور پر اس وقت جب مجھے یہاں پر مچھر کاٹتے ہیں۔ میری روم میٹ کا ایک  فائدہ یہ بھی تھا کہ  روم میں کوئی مچھر کہیں دیوار پر یا چھت پر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔کیوں کہ مچھر کے بیٹھنے کی دیر ہوتی تھی کہ وہ اگلے لمحے میری روم میٹ کی خوراک بن چکا ہوتا تھا۔ آج بھی اس چھپکلی کی مجھے بہت یاد آتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

طبقاتی تفریق(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی احساس کمتری و محرومی اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔پیسے کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔مجھے بھی امیر بننا ہے۔چاہے مجھے کوئی غلط کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔یہاں سے معاشرتی بیگار پیدا ہوتا ہے۔انتشار پسندی جنم لیتی ہے۔یہی سے انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔غریب نوجوانوں میں جب خواہشات کی گھٹن بڑھتی ہے۔تو غلط نظریات ان کے ذہنوں میں جگہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہ امیر بننے کے لیے غلط راستہ نہ بھی اپنائے۔تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ امیر غلط کام کر کے ہی بنا جاتا ہے۔امیر کرپشن کر کے ہی اپنی دولت بڑھاتے ہیں۔امیر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔یہ غلط سوچ انھیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہیں۔وہ اس امیروں کے معشرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے ہیں۔اس طرح ایک کارآمد شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔  اگر ہم دوسری طرف دیکھے تو وہ لوگ جو بہت امیر ہیں،غریبوں کا استحصال کرتے نظر آئے گے۔ہمارا معاشی نظام بھی سرمایہ پر مبنی ہے۔ جو سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔جبکہ غریب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔اس نظام میں امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

!محبت سے آگے

                                !محبت سے آگے کتنا اچھا اور میٹھا لفظ ہے محبت۔ مگر  اس کی گہرائی کا   اندازہ  کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پیار ، محبت ،لگائو اور دل کو اچھا لگنے والے جزبے کے درمیان فرق کیسے کرو۔ میں تو سمجھتا تھا کہ کسی چیز کا دل کو اچھا لگنا،کسی چیز سے لگائو ہونا محبت ہے۔ میں تو اسی محبت سے واقف تھا۔ میرے لیے محبت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔ یہ محبت مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے سب سے محبت تھی۔ اپنے والدین سے،اپنے بھائیوں سے، اپنے گھر سے، خاص پر اپنے کمرے سے،اپنی کاپیوں  سے اپنی پنسلوں سے، اپنے سکول یونیفارم سے۔ اس محبت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد، فلموں اور ڈراموں سے ایک اور محبت کا پتہ چلا۔ جیسا کہ اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو کی، ہیروئن پر نظر پڑتی ہے اور  انھیں آپس میں پیار ہو جاتا ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔شروع میں یہ محبت میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اس محبت کا بھی عادی ہو گیا۔ اس محبت کی بہت سی کہانی...

طبقاتی تفریق

اللہ تعالی نے  تمام انسان مٹی سے پیدا کیے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی انسان، ایک ہی طریقے سے آتا ہے اور نطفے سے ہی اس کا وجود بنتا ہے۔مگر یہاں آنے کے بعد،انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں،یہ انسان ہی ہے جو انسانیت کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تفریق کرتا ہے۔کچھ  خوش قسمت بچے  جو بہت امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ اعلی  معیار کے اچھے سکولوں ، کالجوں میں پڑھتے  ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں ۔اچھا پہنتے ہیں اور آخر والدین کی طرح امیر بنتے ہیں۔وہ بچے جو  متوست گھرانوں میں اور  غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ اس قدر بدقسمت ہوتے ہیں کہ سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔جو سکول جاتے ہیں ،ان میں بھی بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں ،جو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی سکولوں میں جانے والوں کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ بہت کم لوگ نچلے طبقے سے اٹھ کر اعلی طبقے میں شامل ہو پاتے ہیں۔کیوں کے اس معاشرے میں طبقاتی تفریق کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جگہ جگہ مشکلات کھڑی ہیں۔ایک غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسی غربت اور محرومیت سے لڑت...