Skip to main content

سوچتا ہوں



اتنی بڑی کائنات ہے۔اس میں ملین کے حساب سے کلسٹر ہیں۔کوئی بہت بڑے ہے تو کوئی چھوٹے ہے۔پھر ان کلسٹروں میں کئی ملین گلیکسیز ہے۔اور  گلیکسیز کے اندر سولر سسٹم کی طرح کے کئی پلانٹ سسٹمز ہیں۔ان پلانٹ سسٹمز میں آگے کئی چھوٹے بڑے پلانٹ ہوتے ہیں۔ایسے ہی ہماری دنیا بھی ایک پلانٹ ہے۔نام ہے ارتھ۔جس کی حیثیت اس کائنات میں گرد و غبار میں اڑنے والے ایک زرے سے بھی کم ہے۔اگر اس وسیع و عریض دنیا کی اس کائنات میں یہ حیثیت ہے تو ہماری کیا اوقات ہو گی۔مگر پھر  بھی ہم اس دنیا میں تھوڑی سی زمین کے مالک بن کر خود کو عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔دوسروں سے خود کو اعلی و برتر ماننے لگتے ہے۔ہمارے پاس تھوڑی سی طاقت و اختیار آ جائے تو ہم یہ برداشت نہیں کرتے کہ ہم سے کوئی اونچی آواز میں بات کرے۔ہم اپنی ضرورت سے زائد کے وسائل پر، زمین پر، قابض ہو کر  کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم  کسی اور کا حق کھا رہے ہیں۔اتنی چھوٹی سی دنیا میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنا غلام بنا کر ،قتل کر کے، ہم اپنے نام کے ساتھ "دی گریٹ"لگاتے ہیں۔کیا یہ مذاق نہیں ہے؟کیا ایسا کرنے سے ہم واقعی میں عظیم بن جاتے ہیں؟مجھ جیسے جاہل کو تو اس عظمت کی سمجھ نہیں آئی۔

Comments

Popular posts from this blog

طبقاتی تفریق(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی احساس کمتری و محرومی اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔پیسے کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔مجھے بھی امیر بننا ہے۔چاہے مجھے کوئی غلط کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔یہاں سے معاشرتی بیگار پیدا ہوتا ہے۔انتشار پسندی جنم لیتی ہے۔یہی سے انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔غریب نوجوانوں میں جب خواہشات کی گھٹن بڑھتی ہے۔تو غلط نظریات ان کے ذہنوں میں جگہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہ امیر بننے کے لیے غلط راستہ نہ بھی اپنائے۔تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ امیر غلط کام کر کے ہی بنا جاتا ہے۔امیر کرپشن کر کے ہی اپنی دولت بڑھاتے ہیں۔امیر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔یہ غلط سوچ انھیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہیں۔وہ اس امیروں کے معشرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے ہیں۔اس طرح ایک کارآمد شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔  اگر ہم دوسری طرف دیکھے تو وہ لوگ جو بہت امیر ہیں،غریبوں کا استحصال کرتے نظر آئے گے۔ہمارا معاشی نظام بھی سرمایہ پر مبنی ہے۔ جو سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔جبکہ غریب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔اس نظام میں امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

!محبت سے آگے

                                !محبت سے آگے کتنا اچھا اور میٹھا لفظ ہے محبت۔ مگر  اس کی گہرائی کا   اندازہ  کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پیار ، محبت ،لگائو اور دل کو اچھا لگنے والے جزبے کے درمیان فرق کیسے کرو۔ میں تو سمجھتا تھا کہ کسی چیز کا دل کو اچھا لگنا،کسی چیز سے لگائو ہونا محبت ہے۔ میں تو اسی محبت سے واقف تھا۔ میرے لیے محبت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔ یہ محبت مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے سب سے محبت تھی۔ اپنے والدین سے،اپنے بھائیوں سے، اپنے گھر سے، خاص پر اپنے کمرے سے،اپنی کاپیوں  سے اپنی پنسلوں سے، اپنے سکول یونیفارم سے۔ اس محبت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد، فلموں اور ڈراموں سے ایک اور محبت کا پتہ چلا۔ جیسا کہ اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو کی، ہیروئن پر نظر پڑتی ہے اور  انھیں آپس میں پیار ہو جاتا ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔شروع میں یہ محبت میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اس محبت کا بھی عادی ہو گیا۔ اس محبت کی بہت سی کہانی...

طبقاتی تفریق

اللہ تعالی نے  تمام انسان مٹی سے پیدا کیے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی انسان، ایک ہی طریقے سے آتا ہے اور نطفے سے ہی اس کا وجود بنتا ہے۔مگر یہاں آنے کے بعد،انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں،یہ انسان ہی ہے جو انسانیت کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تفریق کرتا ہے۔کچھ  خوش قسمت بچے  جو بہت امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ اعلی  معیار کے اچھے سکولوں ، کالجوں میں پڑھتے  ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں ۔اچھا پہنتے ہیں اور آخر والدین کی طرح امیر بنتے ہیں۔وہ بچے جو  متوست گھرانوں میں اور  غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ اس قدر بدقسمت ہوتے ہیں کہ سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔جو سکول جاتے ہیں ،ان میں بھی بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں ،جو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی سکولوں میں جانے والوں کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ بہت کم لوگ نچلے طبقے سے اٹھ کر اعلی طبقے میں شامل ہو پاتے ہیں۔کیوں کے اس معاشرے میں طبقاتی تفریق کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جگہ جگہ مشکلات کھڑی ہیں۔ایک غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسی غربت اور محرومیت سے لڑت...