بلا عنوان
آج میں ایک آئسکریم کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔کہ میری نظر دکان میں داخل ہوتے اس شخص پر پڑی جو کہ کچھ دیر پہلے ہمارے اگے آگے اپنی چھوٹی سی بیٹی کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا۔دکان مین داخل ہوتے ہی اس نے بیٹی کو بڑے پیار سے اٹھا کے ایک کرسی پر بٹھایا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی کوئی ساڑے تین یا چار سال کی ہو گی۔کندھوں پر چھوٹا سا سکول بیگ لٹکائے،بالوں کی چھوٹی سی پونی کیے ہوئے وہ لڑکی بلکل ننھی پری لگ رہی تھی۔وہ آدمی شاید اپنی
بیٹی کو ٹیوشن سے واپس لے کر آرہا تھا۔اس شخص کے پھٹے پرانے لباس مگر اچھی بول چال اور اعتماد نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا تھا۔اسی وجہ سے میں کافی دیر تک ان باپ بیٹی کے پیچھے چلتا آیا تھا۔چلتے ہوئے میں یہ دیکھ رہا تھا کہ وہ ارد گرد اس طرح نظریں گما رہا تھا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔آخر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ پانی تلاش کر رہا تھا۔پانی کے ایک کولر کو دیکھتے ہی وہ اس کی طرف لپکا اور لمحے بھر میں دو اڑھائی گلاس پانی پی گیا۔یہ بات میرے لیے حیران کن اس لیے تھی کیوں کہ کچھ ہی قدم پیچھے اس نے اپنی بیٹی کو ایک ٹھنڈے فریزر سے، چاکلیٹ نکال کر خرید کر دی تھی۔مگر اپنے لیے ساتھ پڑی بیس روپے کی پانی کی بوتل نہیں لی۔اس کا لباس میری اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے کافی تھا۔آگے چل کر وہ بیٹی کہ لے کر سٹیشنری کی دکان میں داخل ہو گیا تھااور میں یہاں آ گیا تھا۔مگر اب اسے یہاں دیکھ کر میں ایک دفعہ پھر اس کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔میرا زہن کہہ رہا تھا کہ وہ ایک کپ ہی آئسکریم آرڈر کرے گا اور ہوا بھی ایسا ہی۔اس نے ایک کپ آئسکریم منگوائی اور بیٹی کو پکڑا دی۔وہ چھوٹی سی گڑیا آئسکریم کھاتے ہوئے بول رہی تھی کہ"میں یہ نئی پنسل اور کلر کل اپنی دوستوں کو بھی دکھائوں گی ان کے پاس ایسی بہت سی پنسلیں ہیں"اس طرح کی وہ اور بھی بہت سی باتیں کر رہی تھی۔اور وہ شخص مسکرائے جا رہا تھا۔آخر جب لڑکی نے کپ رکھ دیا تو اس شخص نے اٹھا کر باقی بچی ہوئی آئسکریم اسے کھلانے کی کوشش کی مگر جب اس نے نہیں کھائی تو اس نے خود کپ خالی کیااور اٹھتے ہوئے اپنی ایک جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ دس دس کے نوٹ نکالے پھر دوسری جیب میں سے کچھ اور دس دس کے نوٹ نکال کر کائونٹر پر پیسے ادا کیے۔اور اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا۔
اور میں وہی بیٹھا ،پھٹے پرانے کپڑوں میں موجود اس شخص کی عظمت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
Comments
Post a Comment