اللہ تعالی نے تمام انسان مٹی سے پیدا کیے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی انسان، ایک ہی طریقے سے آتا ہے اور نطفے سے ہی اس کا وجود بنتا ہے۔مگر یہاں آنے کے بعد،انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں،یہ انسان ہی ہے جو انسانیت کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تفریق کرتا ہے۔کچھ خوش قسمت بچے جو بہت امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ اعلی معیار کے اچھے سکولوں ، کالجوں میں پڑھتے ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں ۔اچھا پہنتے ہیں اور آخر والدین کی طرح امیر بنتے ہیں۔وہ بچے جو متوست گھرانوں میں اور غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ اس قدر بدقسمت ہوتے ہیں کہ سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔جو سکول جاتے ہیں ،ان میں بھی بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں ،جو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی سکولوں میں جانے والوں کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔
بہت کم لوگ نچلے طبقے سے اٹھ کر اعلی طبقے میں شامل ہو پاتے ہیں۔کیوں کے اس معاشرے میں طبقاتی تفریق کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جگہ جگہ مشکلات کھڑی ہیں۔ایک غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسی غربت اور محرومیت سے لڑتے لڑتے زندگی گزار دیتا ہے۔جب سے وہ ہوش سنبھالتا ہے اس کی سوچ اپنے والدین کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں اٹکی رہتی ہے۔مثلا کہ کب ابو کو تنخواہ ملے گی اور ہماری پسند کا کھانا بنے گا؟ عید پتہ نہیں کب آئے گی کہ اس دفعہ ابو نے مجھے نئے کپڑے لے کے دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے! کب میں بھی اپنے دوست کی طرح سکول جایا کرو گا؟کب مجھے ابو کھلونے لے کے دیں گے؟ایک بچے کے زہن میں یہ سوال اس کے اندر احساس کمتری کو پروان چڑھاتے ہیں۔وہ سکول جانے لگتا ہے تو اسی احساس کمتری کے تحت،وہ سکول میں داخل ہوتا ہے۔سکول میں جب وہ اپنے سے بہتر وردی میں بچوں کو دیکھتا ہیں،گاڑیوں میں آتے جاتے بچوں کو دیکھتا ہے،دوسرے بچوں کی خواہش کی ہر چیز جب ان کے سامنے نازل ہوتے دیکھتا ہے تو یہ احساس کمتری اور بڑھتا جاتا ہے۔اس کے برعکس امیروں کے گھڑ پیدا ہونے والوں کو کوئی مشکل نہیں ہوتی،خواہش کی ہر چیز ان کے سامنے ہوتی ہیں وہ اچھا کھاتے ہیں ۔اپنے والدین کی طرح بڑا ہی سوچتے ہیں۔سکولوں کالجوں میں نئے نئے چمکتے کپڑوں کے ساتھ جاتے ہیں۔ضرورت کی ہر شے ان کے پاس ہوتی ہے۔اور یہ سب چیزیں ان میں احساس برتری کو فروغ دیتی ہیں۔وہ اپنے آپ کو باقیوں سے اعلی سمجھتے ہیں۔ان میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن میں عاجزی ہوتی ہیں۔غریب ان کے لیے گویا کسی اور سیارے کی مخلوق ہو۔یہ احساس برتری ان میں براہ راست خود اعتمادی کو پیدا کرتا ہے۔اسی غریب اور امیر کی سوچ کا فرق اس لطیفے سے آپ کے اوپر اور واضح ہو جائے گا"ایک امیر باپ، بیٹا اور ایک غریب باپ، بیٹا مینار پاکستان پر گئے۔امیر لڑکا مینار سے نیچے جانکتے ہوئے باپ سے بولا "پاپا وہ ۔۔۔وہ وائٹ گاڑیوں کے بیچ میں کھڑی ریڈ کلر والی کار میں نے لینی ہیں"جبکہ غریب کا بچہ نیچے دیکھتے ہوئے باپ سے کہنے لگا"ابا ۔۔۔ابا آو اتھوں تھلے تھوک کرنے آ۔۔۔تہ تکنے آ پہلا کس نا تھوک تھلے پجنا اے"یہ وہ سوچ کا فرق ہے"
غریب کے اندر موجود احساس کمتری اس کے اندر خود اعتمادی نام کی کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔جو ساری زندگی اس کے لیے مشکلات کا سبب بنتا ہے۔(جاری ہے)
Comments
Post a Comment