Skip to main content

غریبی میں نام پیدا کر (گزشتہ سے پیوستہ)۔

اس لیے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اس دولت کے لیے اپنی خودی گروی مت رکھو بلکہ اس غریبی میں ہی رہ کر اپنا نام پیدا کرو۔آج مسلمانوں کے زیادہ تر مسائل کی وجہ یہی دولت کی ہوس ہے۔آج مسلمانوں میں غیرت ختم ہو گئی ہے۔اس دولت کے لیے ،دوسروں کی نقل کرتے ہوئے،نئے برانڈ کے کپڑوں کے لیے ،نئے سٹائل کے جو توں  کے لیے،ہمیں گھر والوں سے مانگنے میں شرم نہیں آتی۔بلکہ ہم تو انھیں مجبور کر کے لیتے ہیں۔اور والدین اپنا پیٹ کاٹ کر ہمیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔سڑک پڑ کپڑے اتار کر کھڑے ہونا چھوٹی بے غیرتی ،بےشرمی ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بڑی بے غیرتی، بے شرمی ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک اور جگہ فرمایا ہے:۔

اس رزق سے موت اچھی جس کے کھانے سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی 

یہی بے شرمی ہمارا قومی رویہ  بن چکی ہے۔ہم ہر ایک ملک سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔دوسرے ممالک کے سربراہان ،ہمارے حکمرانوں سے ملنے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کے کہیں مدد کی درخواست ہی نہ کر ڈالیں۔کہیں پیسے ہی نہ مانگ لیں۔1947ء میں ہم نے آزادی تو حاصل کر لی ۔لیکن خود مختار نہ بن سکے۔آج بھی ہم اوروں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔ آج تک ہم کسی  بھی میدان میں اپنا نام نہیں پیدا کر سکے۔ہر میدان میں ہم دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔آخر میں علامہ اقبال کی پوری نظم:۔

ديار عشق ميں اپنا مقام پيدا کر
نيا ع ، نئے صبح و شام پيدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پيدا کر
اٹھا نہ شيشہ گران فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مينا و جام پيدا کر
ميں شاخ تاک ہوں ، ميري غزل ہے ميرا ثمر
مرے ثمر سے مےء لالہ فام پيدا کر
مرا طريق اميري نہيں ، فقيري ہے
خودي نہ بيچ ، غريبي ميں نام پيدا کر


Comments

Popular posts from this blog

طبقاتی تفریق(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی احساس کمتری و محرومی اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔پیسے کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔مجھے بھی امیر بننا ہے۔چاہے مجھے کوئی غلط کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔یہاں سے معاشرتی بیگار پیدا ہوتا ہے۔انتشار پسندی جنم لیتی ہے۔یہی سے انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔غریب نوجوانوں میں جب خواہشات کی گھٹن بڑھتی ہے۔تو غلط نظریات ان کے ذہنوں میں جگہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہ امیر بننے کے لیے غلط راستہ نہ بھی اپنائے۔تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ امیر غلط کام کر کے ہی بنا جاتا ہے۔امیر کرپشن کر کے ہی اپنی دولت بڑھاتے ہیں۔امیر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔یہ غلط سوچ انھیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہیں۔وہ اس امیروں کے معشرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے ہیں۔اس طرح ایک کارآمد شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔  اگر ہم دوسری طرف دیکھے تو وہ لوگ جو بہت امیر ہیں،غریبوں کا استحصال کرتے نظر آئے گے۔ہمارا معاشی نظام بھی سرمایہ پر مبنی ہے۔ جو سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔جبکہ غریب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔اس نظام میں امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

!محبت سے آگے

                                !محبت سے آگے کتنا اچھا اور میٹھا لفظ ہے محبت۔ مگر  اس کی گہرائی کا   اندازہ  کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پیار ، محبت ،لگائو اور دل کو اچھا لگنے والے جزبے کے درمیان فرق کیسے کرو۔ میں تو سمجھتا تھا کہ کسی چیز کا دل کو اچھا لگنا،کسی چیز سے لگائو ہونا محبت ہے۔ میں تو اسی محبت سے واقف تھا۔ میرے لیے محبت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔ یہ محبت مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے سب سے محبت تھی۔ اپنے والدین سے،اپنے بھائیوں سے، اپنے گھر سے، خاص پر اپنے کمرے سے،اپنی کاپیوں  سے اپنی پنسلوں سے، اپنے سکول یونیفارم سے۔ اس محبت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد، فلموں اور ڈراموں سے ایک اور محبت کا پتہ چلا۔ جیسا کہ اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو کی، ہیروئن پر نظر پڑتی ہے اور  انھیں آپس میں پیار ہو جاتا ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔شروع میں یہ محبت میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اس محبت کا بھی عادی ہو گیا۔ اس محبت کی بہت سی کہانی...

طبقاتی تفریق

اللہ تعالی نے  تمام انسان مٹی سے پیدا کیے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی انسان، ایک ہی طریقے سے آتا ہے اور نطفے سے ہی اس کا وجود بنتا ہے۔مگر یہاں آنے کے بعد،انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں،یہ انسان ہی ہے جو انسانیت کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تفریق کرتا ہے۔کچھ  خوش قسمت بچے  جو بہت امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ اعلی  معیار کے اچھے سکولوں ، کالجوں میں پڑھتے  ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں ۔اچھا پہنتے ہیں اور آخر والدین کی طرح امیر بنتے ہیں۔وہ بچے جو  متوست گھرانوں میں اور  غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ اس قدر بدقسمت ہوتے ہیں کہ سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔جو سکول جاتے ہیں ،ان میں بھی بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں ،جو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی سکولوں میں جانے والوں کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ بہت کم لوگ نچلے طبقے سے اٹھ کر اعلی طبقے میں شامل ہو پاتے ہیں۔کیوں کے اس معاشرے میں طبقاتی تفریق کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جگہ جگہ مشکلات کھڑی ہیں۔ایک غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسی غربت اور محرومیت سے لڑت...