Skip to main content

غریبی میں نام پیدا کر



میرا  طریق  امیری  نہیں  فقیری  ہے

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر


یہ علامہ اقبال کی نظم"جاوید کے نام" کا آ خری شعر ہے۔علامہ اقبال دیکھنے میں تو اپنے بیٹے جاوید سے مخاطب ہیں۔لیکن  حقیقت میں وہ تمام مسلمان نوجوانوں کو پیغام دے رہے ہیں۔علامہ اقبال ایک مسلمان کی زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ ایک مسلمان کبھی بھی دولت کے پیچھے نہیں بھاگتا اور نہ ہی دولت اس کے راستے کی رکاوٹ بنتی ہے۔ایک مسلمان کی زندگی سادگی پر مبنی ہوتی ہیں۔ہم سب کے لیے نبی(ص) کی زندگی  ایک بہترین نمونہ ہیں۔ہم دیکھ سکتے ہیں کے آپ(ص) نے اپنی ساری زندگی سادگی میں گزاری۔آپ(ص) کے گھر کئی کئی روز فاقہ رہتا تھا۔کیا آپ(ص) کے حکم سے پہاڑ سونے کے نہیں بن سکتے تھے؟ لیکن آپ(ص) نے سادگی کو چنا۔آج اسی دولت کے چکر میں ہم نے اپنے آپ کو بھلا دیا ہیں۔ آج ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کالج اور یونیورسٹی میں صرف اس وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں کے ان کے پاس نئے ،برانڈڈ کپڑے نہیں ہوتے۔ان کے پاس سب کچھ پرانا ہوتا ہے۔ پرانے جوتے ، پرانے کپڑے ،اگر نئے ہو بھی تو وہ عام سے ہوتے ہیں۔میں انھیں بتا دینا چاہتا ہو کہ یہ دولت یہ پیسے سب کچھ عارضی ہیں۔اس دنیا میں انسان کا کردار یاد رکھا جاتا ہیں۔اس کی   عظمت ،اس کے  کام کو یاد رکھا  جاتا ہیں۔میرے دوستوں وہ کام جو کو ئی اور لامحدود وسائل سے بھی نہ کر سکے  اگر آپ محدود وسائل میں کر دیں تو یہ آپ کی عظمت کا اعتراف ہے۔آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ک آپ کیسے دکھتے ہیں۔آپ کے کپڑے کیسے لگ رہے ہیں۔یہ دنیا کچھ یاد نہیں رکھتی کہ کس کے پاس سنہ 1998 میں فلاں ماڈل کی گاڑی تھی۔کس کہ پاس فلاں سن میں فلاں چیز تھی۔دنیا  میں صرف انسان کا کام زندہ رہتا ہے۔باقی سب وقت کے ساتھ مٹ جاتا ہے۔(جاری ہیں)۔

Comments

Popular posts from this blog

طبقاتی تفریق(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی احساس کمتری و محرومی اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔پیسے کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔مجھے بھی امیر بننا ہے۔چاہے مجھے کوئی غلط کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔یہاں سے معاشرتی بیگار پیدا ہوتا ہے۔انتشار پسندی جنم لیتی ہے۔یہی سے انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔غریب نوجوانوں میں جب خواہشات کی گھٹن بڑھتی ہے۔تو غلط نظریات ان کے ذہنوں میں جگہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہ امیر بننے کے لیے غلط راستہ نہ بھی اپنائے۔تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ امیر غلط کام کر کے ہی بنا جاتا ہے۔امیر کرپشن کر کے ہی اپنی دولت بڑھاتے ہیں۔امیر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔یہ غلط سوچ انھیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہیں۔وہ اس امیروں کے معشرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے ہیں۔اس طرح ایک کارآمد شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔  اگر ہم دوسری طرف دیکھے تو وہ لوگ جو بہت امیر ہیں،غریبوں کا استحصال کرتے نظر آئے گے۔ہمارا معاشی نظام بھی سرمایہ پر مبنی ہے۔ جو سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔جبکہ غریب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔اس نظام میں امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

!محبت سے آگے

                                !محبت سے آگے کتنا اچھا اور میٹھا لفظ ہے محبت۔ مگر  اس کی گہرائی کا   اندازہ  کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پیار ، محبت ،لگائو اور دل کو اچھا لگنے والے جزبے کے درمیان فرق کیسے کرو۔ میں تو سمجھتا تھا کہ کسی چیز کا دل کو اچھا لگنا،کسی چیز سے لگائو ہونا محبت ہے۔ میں تو اسی محبت سے واقف تھا۔ میرے لیے محبت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔ یہ محبت مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مجھے سب سے محبت تھی۔ اپنے والدین سے،اپنے بھائیوں سے، اپنے گھر سے، خاص پر اپنے کمرے سے،اپنی کاپیوں  سے اپنی پنسلوں سے، اپنے سکول یونیفارم سے۔ اس محبت کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد، فلموں اور ڈراموں سے ایک اور محبت کا پتہ چلا۔ جیسا کہ اکثر دکھایا جاتا ہے کہ ہیرو کی، ہیروئن پر نظر پڑتی ہے اور  انھیں آپس میں پیار ہو جاتا ہے۔ محبت ہو جاتی ہے۔شروع میں یہ محبت میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ مگر آہستہ آہستہ اس محبت کا بھی عادی ہو گیا۔ اس محبت کی بہت سی کہانی...

طبقاتی تفریق

اللہ تعالی نے  تمام انسان مٹی سے پیدا کیے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی انسان، ایک ہی طریقے سے آتا ہے اور نطفے سے ہی اس کا وجود بنتا ہے۔مگر یہاں آنے کے بعد،انسانوں کے بنائے ہوئے اس معاشرے میں،یہ انسان ہی ہے جو انسانیت کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو معاشرے میں طبقاتی تفریق کرتا ہے۔کچھ  خوش قسمت بچے  جو بہت امیر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں۔وہ اعلی  معیار کے اچھے سکولوں ، کالجوں میں پڑھتے  ہیں، اچھا کھاتے پیتے ہیں ۔اچھا پہنتے ہیں اور آخر والدین کی طرح امیر بنتے ہیں۔وہ بچے جو  متوست گھرانوں میں اور  غریب گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ان میں سے کچھ اس قدر بدقسمت ہوتے ہیں کہ سکول کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔جو سکول جاتے ہیں ،ان میں بھی بہت کم ہی ایسے بچے ہوتے ہیں ،جو خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر اعلی سکولوں میں جانے والوں کا مقابلہ کر پاتے ہیں۔ بہت کم لوگ نچلے طبقے سے اٹھ کر اعلی طبقے میں شامل ہو پاتے ہیں۔کیوں کے اس معاشرے میں طبقاتی تفریق کی وجہ سے غریب آدمی کے لیے جگہ جگہ مشکلات کھڑی ہیں۔ایک غریب کے گھر پیدا ہونے والا بچہ بھی اسی غربت اور محرومیت سے لڑت...