Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2019

بلا عنوان

         بلا عنوان          آج میں ایک آئسکریم کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔کہ میری نظر دکان میں داخل ہوتے اس شخص پر پڑی جو کہ کچھ دیر پہلے ہمارے اگے آگے اپنی چھوٹی سی بیٹی کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا۔دکان مین داخل ہوتے ہی اس نے بیٹی کو بڑے پیار سے اٹھا کے ایک کرسی پر بٹھایا۔ وہ چھوٹی سی لڑکی کوئی ساڑے تین یا چار سال کی ہو گی۔کندھوں پر چھوٹا سا سکول بیگ لٹکائے،بالوں کی چھوٹی سی پونی کیے ہوئے وہ لڑکی بلکل ننھی پری لگ رہی تھی۔وہ آدمی شاید اپنی بیٹی کو ٹیوشن سے واپس لے کر آرہا تھا۔اس شخص کے پھٹے پرانے لباس مگر اچھی بول چال اور اعتماد نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا تھا۔اسی وجہ سے میں کافی دیر تک ان باپ بیٹی کے پیچھے چلتا آیا تھا۔چلتے ہوئے میں یہ دیکھ رہا تھا کہ وہ ارد گرد اس طرح نظریں گما رہا تھا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔آخر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کچھ اور نہیں بلکہ پانی تلاش کر رہا تھا۔پانی کے ایک کولر کو دیکھتے ہی وہ اس کی طرف لپکا اور لمحے بھر میں دو اڑھائی گلاس پانی پی گیا۔یہ بات میرے لیے حیران کن اس لیے تھی کیوں کہ ک...

نشیب و فراز

ایک طرف خوشی میں ڈھول پیٹے جا رہے ہیں تو             دوسری طرف شدت غم میں سر پیٹے  جا رہے ہیں              ایک  طرف  مسرتیں  ہیں  تو              دوسری طرف صرف حسرتیں                ایک طرف آسودگی ہے تو                  دوسری طرف افسردگی                 ایک طرف روشنیاں ہیں تو                    دوسری طرف تاریکیاں  ایک طرف فضا میں مسکراہٹیں بکھر  رہی ہیں تو دوسری طرف اسی فضا میں سسکیاں  سنائی دیتی ہیں

طبقاتی تفریق(گزشتہ سے پیوستہ)

یہی احساس کمتری و محرومی اس کے اندر یہ سوچ پیدا کرتا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔پیسے کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔مجھے بھی امیر بننا ہے۔چاہے مجھے کوئی غلط کام ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔یہاں سے معاشرتی بیگار پیدا ہوتا ہے۔انتشار پسندی جنم لیتی ہے۔یہی سے انتہا پسندی فروغ پاتی ہے۔غریب نوجوانوں میں جب خواہشات کی گھٹن بڑھتی ہے۔تو غلط نظریات ان کے ذہنوں میں جگہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔اگر یہ امیر بننے کے لیے غلط راستہ نہ بھی اپنائے۔تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ امیر غلط کام کر کے ہی بنا جاتا ہے۔امیر کرپشن کر کے ہی اپنی دولت بڑھاتے ہیں۔امیر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔یہ غلط سوچ انھیں انتہا پسندی کی طرف دھکیلتی ہیں۔وہ اس امیروں کے معشرے سے کٹے کٹے رہنے لگتے ہیں۔اس طرح ایک کارآمد شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔  اگر ہم دوسری طرف دیکھے تو وہ لوگ جو بہت امیر ہیں،غریبوں کا استحصال کرتے نظر آئے گے۔ہمارا معاشی نظام بھی سرمایہ پر مبنی ہے۔ جو سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ دیتا ہے۔جبکہ غریب کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔اس نظام میں امیر لوگ امیر تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔